Thursday, 11 December 2014

Some Unforgetable Moments - Munir Ahmad Majoka

Munir Ahmad Majoka With Hazrat Mirza Tahir Ahmad

 Reciting Poem in Anual Ijtema of Atock Jamaat

 Reciting Poem in Anual Ijtema of Atock Jamaat

Receiving Prize from Ameer Jamaat Atock in 1985

 Receiving Prize from Ameer Sahb Germany

 Receiving Medel from Qaid Sahb

 Reciting Poem

 Reciting Poem

Receiving Prize

 Munir Ahmad Majoka At Minara-tul-Masih, Qadiyan

 Bahishti Maqbara, Qadiyan

 Reading Noor-ud-din Magzine

 Munir Ahmad Majoka At Bait-ul-Fikar , Qadiyan

 Munir Ahmad Majoka Outside Hujrah, Qadiyan

 Munir Ahmad Majoka at Bait-ud-Dua, Qadiyan

 Munir Ahmad Majoka At Qadiyan

 Munir Ahmad Majoka Outside Gool Kamrah, Qadiyan

 Munir Ahmad Majoka At Qadiyan

 Munir Ahmad Majoka At Qadiyan

Bahishti Maqbara Qadiyan

 Munir Ahmad Majoka At Qadiyan

 Bahishti Maqbara Qadiyan 

 Munir Ahmad Majoka With His Daughter

Islamia College Qadiyan

Thursday, 12 September 2013

Muhammad Ali Majoka and Munir Ahmad Majoka





مجوکہ

 مجوکہ

مجوکہ ایک قبیلہ کا نام ہے جس کا آغاز راجستھان، ہندوستان سے ہوا۔ اس قبیلہ کی ایک بڑی تعداد آجکل جہلم دریا کے کنارے آباد حویلی مجوکہ، پاکستان اور خطلبانہ راجستھان، ہندوستان میں ہے۔ مجوکہ قبیلہ کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ یہ راجستھان سے ہجرت کر کے پہلے سندھ کے علاقہ میں موجودہ لاڑکانہ اور روٹوڈیرو اور پھر وہاں سے شمال کی جانب سفر کرتے ہوئے پنجاب میں حویلی مجوکہ کے مقام پر پہنچے۔

آغاز اور ہجرت

مجوکہ قبیلہ کی اپنی روایات کے مطابق ان کا تعلق قطب شاہ اعوان سے ہے جو کہ مشہور اعوان قبائل کے جد امجد کہلاتے ہیں۔ اعوان کے متعلق دعوی کیا جاتا ہے کہ یہ نبی محمد کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ قطب شاہ اعوان نے ایک کھوکھر۔راجپوت شہزادی سے شادی کی تھی جس سے ان کا ایک بیٹا معظم تھا۔ اس بیٹے کی اولاد "معظم کے" کہلاتی تھی۔ معظم نام کو راجپوت "معجم" بولتے تھے اس طرح معظم کی اولاد "معجم کے" کہلانے لگی۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ نام بگڑ کر "مجو کے" اور پھر "مجوکے" ہو گیا۔
معظم کے خاندان میں سے بعض نے نا معلوم وجوہات کی بنا پر راجستھان کو چھوڑ کر مغرب کا سفر اختیار کیا اور سندھ دریا کے کنارہ پہنچ گئے۔ وہاں سے انہوں نے دریا کے مشرقی کنارے کے ساتھ ساتھ شمال کی جانب پنج داد تک سفر کیا۔ یہاں سے دریائے سندھ کو چھوڑ کر شمال ہی کی جانب دریائے جہلم کے کنارے موجودہ جگہ "حویلی مجوکہ" پہنچے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ واقعہ قریبا ۴۰۰ سال قبل کا ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ اس وقت اس علاقے میں بلوچ قوم آباد تھی۔ مقامی بلوچ سردار نذدیکی شہر "خواجہ ابرءوں" میں رہتا تھا۔ مشہور ہے کہ اس نے ایک قلعہ تعمیر کر رکھا تھا اور اس کے پاس ایک جنگی ہاتھی بھی تھا۔ سردار نے مجوکوں کو اپنے شہر آنے اور وہاں آباد ہونے کو کہا۔ لیکن مجوکہ قبیلہ نے شہر کی بجائے موجودہ جگہ پر رہنا پسند کیا۔ اس پر بلوچ سردار نے ان پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا۔
لڑائی میں ایک بلوچ مارا گیا اور وہ جگہ جہاں وہ گرا "کلی پٹ" کہلائی۔ یہ مجوکہ علاقے کی جنوبی حد بھی ہے۔ یہ جگہ اب تک معلوم ہے۔ مجوکہ قبیلہ کی رہنمائی ایک "پیر" کر رہے تھے جن کا تعلق مقامی "کانجو" قبیلہ سے تھا۔

سکھ دور

سکھ دور میں مجوکہ قبیلہ میں اندرونی اختلاف پیدا ہو گیا۔ دو سردار، فتح محمد اور غازی جو کہ "تاجے کے" خاندان سے تعلق رکھتے تھے نے مقامی حکمران محرم بھٹی کے ساتھ مل کر اپنے مخالف احمد ولد خان کو علاقہ سے نکال دیا۔ کچھ عرصہ بعد احمد نے اس ذیادتی کے خلاف مجوکہ کے لوگوں کو اپنے ساتھ ملا لیا۔ محرم بھٹی پر پہلا حملہ نکام ہونے کے بعد دوسرا حملہ کمیاب رہا اور محرم بھٹی ایک کنویں میں گر گیا جہاں اسے مار دیا گیا۔ احمد گاءوں واپس آ گیا اور فتح محمد اور غازی کی وفات کے بعد مجوکہ قبیلہ کا سردار بن گیا۔

انگریز دور

انگریزوں کے ہاتھوں پنجاب کی فتح کے بعد علاقہ کی حد بندی ہوئی۔ اس مقصد کے لئے احمد ولد خان انگریز افسروں کے ساتھ گیا اور مندرجہ ذیل حدود مقرر ہوئیں۔
جنوب میں کلی پٹ سے جہانیاں شاہ تک۔ مشرق میں جہانیاں شاہ سے نہنگ تک۔ شامل میں نہنگ سے ٹھٹھی بکھ شاہ تک۔ مغرب میں ٹھٹھی بکھ شاہ سے کلی پٹ تک۔
کہا جاتا ہے کہ احمد نے اس دوران بھاگ بھائی نامی ایک عورت سے رشوت لی تھی اور اس کا علاقہ مجوکہ سرحد میں شامل نہیں کیا تھا۔ اس عورت نے احمد کو پینے کے لئے دودھ کا ایک مٹکا پیش کیا جس کی تہہ میں اشرفیاں چھپی تھیں تاکہ انگریز انہیں نہ دیکھ سکیں۔ احمد نے مٹکے کے وزن سے معلوم کر لیا کہ اس میں اشرفیاں ہیں اور اس کا علاقہ چھوڑ دیا۔ اسی طرح بتایا جاتا ہے کہ ایک اور جگہ بھی احمد نے ذاتی مفادات کی خاطر مجوکہ رقبہ میں شامل نہ کی۔

ذیلی تقسیم

بلوچوں کے ساتھ کامیاب لذائی کے بعد مجوکہ قبیلہ کو ۶ حصوں جنہیں "وڑی" کہتے ہیں میں تقسیم کیا گیا۔ ہر وڑی کو رقبہ کا ایک حصہ دیا گیا اور انہیں کہا گیا کہ وہ اپنے اپنے حصہ میں دوسری جگہوں پر آباد مجوکوں کو ساتھ ملا لیں تاکہ ان کی تعداد اور طاقت میں اضافہ ہو۔ یہ وڑیاں اور ان کے ذیلی خاندان یوں ہیں۔

وڑی خاندان
تاجے کے لعل, خدا یار, خضر, یار, غازی, (1) ویرو
نبال کے محمد یار, شیر, گامے, خان, برخردار, حیدر
عمرانے عمر, دلاور, کھیوے, (2) ویرو
گھسوال خضر, جمال, صاحب خان
رپوکے مسن, Lal لعل, موسی, سوہارا, پہاڑی
اکیال نور, رانجھا , کمال, مسو, سلطان, حیات, بڈھے, روہیلے
لانگری سلطان, لنگر, سمند, بکھے

ان خاندانوں میں سے ویرو کے دونوں حصے، حیدر کے، پہاڑی اور روہیلے بعد میں موضع مجوکہ میں آ کر آباد ہوئے۔ لانگری خاندان کے متعلق بتایا جاتا ہے کہ یہ اصل میں مجوکہ قبیلہ سے تعلق نہیں رکھتے تھے لیکن ان کے ساتھ آ کر آباد ہو گئے اور رفتہ رفتہ ان میں مل گئے۔

مجوکہ کا ذکر تاریخ میں


جھنگ ڈسٹرکٹ کے گزٹ میں ۱۸۸۳ میں مجوکہ گاءوں کا ذکر موجود ہے

ہوریس آرتھر روز صاحب نے ۱۹۱۹ میں مجوکہ کا ذکر بطور ذمیندار قبیلہ کے کیا ہے جو کہ شاہ پور کے علاقہ میں موجود ہے

ویکلی نے ۱۹۶۸ میں تحصیل شاہ پور میں مجوکہ کا ذکر کیا ہے

ٹکر صاحب نے ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقہ میں ایک جگہ مجوکہ کا ذکر کیا ہے، جو کہ اسی قبیلہ کا کوئی حصہ ہو سکتا ہے
مجوکہ قبیلہ کے افراد دنیا کے کئی ممالک میں موجود ہیں جن میں آسٹریلیا، کینیڈا، فرانس، جرمنی، ائرلینڈ، مشرق وسطی کے ممالک، سعودی عرب، برطانیہ، امریکہ وغیرہ شامل ہیں۔

متبادل خیالات

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ راجپوت قبیلہ کئی خاندانوں میں تقسیم ہو گیا تھا جن میں سے ایک اودھ ہے۔ اودھ خاندان میں سے آگے پھر کئ قبائل نکلے جن میں سے ایک مجوکہ بھی ہے۔ یہ خیال اوپر درج شدہ مجوکوں کے اپنے نظریہ سے متضاد نہیں کیونکہ مجوکہ قبیلہ کی اپنی روایت کے مطابق بھی ان کے جد امجد نے ایک راجپوت شہزادی سے شادی کی تھی۔